سوات:تحصیل مٹہ کے علاقہ ڈھیرئی بیدرہ میں ملزمان کی گرفتاری کے لئے جانے والی پولیس پارٹی کو مسلح ملزمان نے یر غمال بنا کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس سے سرکاری اسلحہ اور دیگر سامان لے لیا۔ تھانہ مٹہ میں علت نمبر399 کے تحت درج ایف آئی ار کے مطابق مقدمہ نمبر398، مورخہ26 اپریل2022ء جرم 324,34 میں ملوث ملزمان نصرے اور اس کے بیٹے شہناہ کو گرفتار کرنے کے لئے منگل اور بدھ کی درمیانی شب اے ایس آئی تاج محمد بہ ہمراہ پولیس سپاہی عبدالمعبود اور حسین زادہ ڈھیرئی پہنچ کر دونوں ملزمان کو گرفتار کیا۔ وہ ملزمان کو تھانہ لے کر جارہے تھے کہ مسلح ملزمان الیاس ولد بخت روان، زاہد حسین، نور خان، عثمان، رحمت، علی الیاس، سلمان، مدنی، روئیداد، حسین زادہ، دلدار، احسان، میاں سید، عبداللہ اور دیگر پچاس، ساٹھ مسلح ملزمان نے تینوں پولیس اہلکاروں سے ملزمان کو چھڑالیا۔ تینوں پولیس اہلکاروں کو الیاس خان ولد بخت روان کے حجرہ میں بند کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس اہلکاروں کی وردیاں پھاڑیں اور سرکاری اسلحہ و کارتوس ان سے لے لیا۔ ایف آئی آر کے مطابق اے ایس آئی عمر سیاب مع نفری سین پوڑہ میں ناکہ بندی پر موجود تھے کہ پولیس اہلکاروں کی یرغمالی کی خبر سن کر ڈھیرئی، بیدرہ پہنچے، تو ملزم الیاس ولد بخت روان مسلح پچاس، ساٹھ کسان کھڑے تھے۔ الیاس کے حجرہ کے سامنے گاڑی کھڑی کی اور پولیس اہلکاروں پر اسلحہ تان لیا جس کے بعد بھاری نفری نے پہنچ کر یرغمال پولیس اہلکاروں کو رہا کرکے طبی امداد کے لئے ہسپتال منتقل کیا۔یرغمال پولیس اہلکاروں کے مطابق حجرہ الیاس میں اُن کو تشدد کا نشانہ بناتے وقت ملزمان مسلسل ویڈیوز بنارہے تھے۔ تھانہ مٹہ میں چودہ معلوم اور پچاس، ساٹھ نامعلوم ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی دفعات سمیت دفعات 324, 225, 353, 395, 427, 148, 149, 7ATA کے تحت مقدمہ درج کردیا گیا۔ ملزمان کی گرفتاری اور موجودہ پُرامن سوات میں پولیس اہلکاروں کے یرغمال بنائے جانے پرڈی پی او زاہدنوازمروت سے بار ہا ر رابطہ کی کوشش کی گئی، انہوں نے بار بار فون مصروف کیا۔ اس سلسلے میں ڈی ایس پی مٹہ پیر سید سے بھی بار بار رابطہ کیا گیا۔ نیز ان کو موبائل کے ذریعے پیغام دیا گیا لیکن انہوں نے بھی فون اٹھایا اور نہ کوئی جواب ہی دیا۔سانحہئ بیدرہ میں جن چودہ معلوم اور پچاس، ساٹھ نامعلوم ملزمان کے خلاف ایف آئی ار درج ہوئی، ان کو گرفتار کرنے کے لئے ایس ایچ او حبیب سید بھاری نفری کے ہمراہ بدھ کی دوپہر ڈھیرئی بیدرہ پہنچے، تو درجنوں مسلح افراد نے پھر پولیس کی بھاری نفری پر ہوائی فائرنگ کی اور پولیس اہلکاروں کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا، جس میں ایس ایچ او حبیب سید اور پولیس کے دیگر اہلکار زخمی ہوگئے۔ آخری اطلاعات تک پولیس علاقہ سے واپس ہوگئی اور ڈی پی او، ڈی ایس پی اور دیگر پولیس افسران تحصیل ناظم عبداللہ خان کے حجرہ میں جرگہ میں مصروف ہیں۔پولیس جن ملزمان نصرے اور اس کے بیٹے کی گرفتاری کے لئے گئے تھے، ملزمان کے درمیان لڑکی کی بجائے لڑکے کی شادی کا تنازعہ تھا۔ 7 دسمبر 2017ء کو ذلیلت بی بی کے نام سے لڑکی کی شادی کوزہ درشخیلہ کے رہائشی عبدالرحمان سے ہوئی۔ شادی کے بعد ذلیلت بی بی نے بیماری کا ڈھونگ رچایا اور شوہر سے نہیں ملی جس کے بعد عبدالرحمان ملائشیا چلاگیا۔ چار سال بعد ملائشیاسے واپس آکر عبدالرحمان نے پولیس میں درخواست دی۔ میڈیکل رپورٹس کے مطابق ذلیلت بی بی میں پیدائشی طور پر مردانہ خاصیت پائی جاتی ہے۔ لڑکا ہونے اور اس کے بارے میں علم ہونے کے باوجود عزت خان کے والدین نصرے اور زوجہ نصرے نے اُس کو لڑکی ظاہر کرکے دھوکا دہی سے شادی کروائی۔ پولیس نے مکمل تفتیش اور میڈیکل رپورٹس کی روشنی میں محمد عزت خان، اس کے والد نصرے اور والدہ کے خلاف دفعات 419-420-466-468-496 کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔ اس شادی کے موقع پر عبدالرحمان کی بہن کا رشتہ نصرے کے بیٹے سے کیا گیا تھا۔ حقیقت کھلنے کے بعد جب نصرے نے عبدالرحمان سے اپنے بیٹے کے لئے اس کی بہن کی شادی کی خاطر تاریخ مانگی، تو عبدالرحمان نے انکار کیا جس کے بعد دونوں فریقین میں لڑائی ہوئی۔مٹہ میں پولیس اہلکاروں کی یر غمالی، بار بار پولیس پر حملوں اور ملزمان کی عدم گرفتاری پر سوات کے لوگوں نے سوشل میڈیا پر سولات اٹھادئے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سوات میں ہزاوں کی تعداد میں پولیس، ایلیٹ فورس، ایف آر پی، سی ٹی ڈی اور ایف سی تعینات ہیں۔پولیس افسران دعویٰ کر رہی ہے کہ سوات پولیس دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے تیار ہے۔ یہاں پولیس اہلکاروں کو پچاس، ساٹھ لوگ یرغمال بنا رہے ہیں۔ پولیس کی بھاری نفری پر بار بار حملے کئے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی سوات پولیس ملزمان کی گرفتاری میں ناکام ہوتی ہے، تو وہ دہشت گردوں کا مقابلہ کیسے کرے گی؟