افغانستان سے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (سوات) کے مزید مسلح شدت پسند سوات میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے بالائی پہاڑی علاقوں میں پناہ گاہیں قائم کردیں۔ گذشتہ رات مسلح شدت پسندوں نے تحصیل مٹہ کے علاقہ سخرہ میں تین اطراف سے پولیس چوکی پر حملہ کیا، لیکن پولیس کے مطابق کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اورمسلح افراد بعد میں فرار ہوگئے۔ مقامی لوگوں کے مطابق تحصیل مٹہ کے بالائی پہاڑی علاقوں میں مسلح شدت پسندوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ادھر ایک طالب کمانڈر نے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں سوات میں داخل ہوگئے ہیں۔ وہ سوات میں طالبان مخالفین، خوانین اور اے این پی والوں کو کسی صورت زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اس سلسلے میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سوا ت زاہد نواز مروت کا موقف جاننے کے لئے ان کو بار بار فون کیا گیا، لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ واضح رہے کہ گذشتہ ماہ بھی مسلح شدت پسندوں نے رات کو تھانہ چپریال پر حملہ کیا تھا۔ اگلے دن پولیس کے ایک ڈی ایس پی کو فائرنگ کرکے زخمی کرنے کے بعد فورسز کے مزید دو افسران کے ساتھ اِغوا کیا تھا۔ دوسری جانب سول سو سائٹی کی جانب سے سوات میں دوبارہ شدت پسندوں کے سرگرم ہونے کے حوالے سے خبروں کے بعد انہوں نے سوات پولیس پر سخت تنقید کی ہے اور کہاں ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں پولیس ہونے کے باوجود شدت پسند سوات میں دوبارہ کیسے داخل ہوئے اور ان کی سرگرمیاں کیوں جاری ہیں؟