سوات(مارننگ پوسٹ)طلباء نہ صرف دور جدید بلکہ مستقبل کے نت نئے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے اعلیٰ تعلیم اور تحقیق جبکہ اساتذہ اپنے دل و دماغ میں محفوظ علوم وفنون کا خزانہ اپنے شاگردوں کو منتقل کرنا فرضِ اولین سمجھیں اعلیٰ تعلیم محض ڈگری کا نام نہیں بلکہ حاصل کردہ علم کو عملی میدان میں ملک و قوم کی ترقی کیلئے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے کوالٹی ایجوکیشن کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے صدیوں پرانی سوچ کو ختم کرکے نئے دور کے تقاضوں کے مطابق تھیوری اور عملی علوم کے حصول پر توجہ کی ضرورت ہے جس کیلئے متعلقہ اداروں کے درمیان رابطوں کی اشد ضرورت ہے ان خیالات کا اظہار ملاکنڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر گل زمان نے پختونخوا ریڈیو کے پروگرام ’’حال احوال‘‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا میزبان فضل خالق خان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وی سی مالاکنڈ یونیورسٹی نے کہا کہ مغربی ممالک باالخصوص سوئیٹزرلینڈ کی اکثریتی یونیورسٹیاں 1830 کے عشرے میں بنی ہوئی ہیں جبکہ ہماری یونیورسٹیوں کی عمر صرف 50 سال ہونے کے باوجود ان کے صدیوں پرانے نظام تعلیم کا مقابلہ نہیں کرسکتیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے نظام تعلیم کی ترقی پر وہ توجہ ہی نہیں دی جس کی آج ہمیں شدید ضرورت ہے انہوں نے تعلیمی اخراجات کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ سنگاپور کی صرف ایک قومی یونیورسٹی کا سالانہ تعلیمی بجٹ ہماری تمام جامعات کے مجموعی بجٹ سے زیادہ ہے جو ہمارے جملہ ذمہ داران کیلئے لمحہ فکریہ ہے انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں کوالٹی ایجوکیشن کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا ہے تو اس کیلئے پانچ نکات پر لازماً توجہ دینا ہوگی اول یہ کہ طلبہ کو ماٹو اپنانا ہوگا کہ ”ہمیں ہر حال میں علم حاصل کرنا ہے‘‘ دوسرے کوالیفائیڈ اساتذہ کی سوچ ’’جو سیکھا ہے اسے اپنے شاگردوں کو منتقل کرنا ہے” تیسرے اعلیٰ تعلیم کیلئے ’’سازگار ماحول‘‘ کی فراہمی جو حکومت کی ذمہ داری ہے چوتھے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق ’’حقیقی نصاب‘‘ کی تیاری اور پانچویں بات پرانی سوچ ختم کرکے نئے دور کے تقاضوں کے مطابق نظام تعلیم رائج کرنا ان میں سے جس کی جو ذمہ داری بنتی ہے اگر اس پر صحیح معنوں میں عمل کیا گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دن دگنی رات چوگنی ترقی نہ کرسکیں پروفیسر ڈاکٹر گل زمان نے ملاکنڈ یونیورسٹی کے حوالے سے بتایا کہ یونیورسٹی آ ف ملاکنڈ کو اپنی بہترین خدمات باالخصوص کم فیس بہتر تعلیم کا نصب العین اپنانے کی بدولت خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر کی جامعات میں منفرد مقام حاصل ہے جس پر ہمیں فخر ہے انہوں نے والدین سے بطور خاص اپیل کی کہ وہ اپنے بچوں کو حصول تعلیم کے دوران موبائل فون سے حتی الوسع دور رکھیں کیونکہ اس عمر میں ان کی ضرورت موبائل نہیں بلکہ ان کا کتاب سے رشتہ پکا ہونا چاہئے جس کیلئے انہیں مواقع فراہم کرنا والدین کی اولین ذمہ داری ہے انہوں نے طلبہ کو بھی تلقین کی کہ وہ دوران تعلیم جو سیکھیں اسے عملی زندگی میں نہ صرف اپنے لئے بلکہ ملک وقوم کی ترقی کیلئے بروئے کار لائیں اور اسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی سعی کریں۔