سوات(مارننگ پوسٹ) صحافی کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکتا البتہ قلم کے ذریعے اسکی نشاندہی کر سکتا ہے لہٰذا جج اور وکیل بن کر جانبداری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے صحافی ہر طرح کی معلومات کو میڈیا کے ذریعے حکومت اور عوام تک مکمل غیرجانبداری کے ساتھ پہنچائے ان خیالات کا اظہار سوات کے سینئر صحافی رفیع اللہ خان نے پختونخوا ریڈیو کے پروگرام ”د سوات رنگونہ” میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا رفیع اللہ خان کا کہنا تھا کہ ریاست کا چوتا ستون ہونے کی مناسبت سے صحافت اور صحافی کو ذمہ دارنہ رپورٹنگ کیساتھ ملکی مفادات اور معاشرتی اقدار کو ترجیح دیتے ہوئے قلم کا استعمال کرنا چاہیئے صحافت محض روزگار کا وسیلہ نہیں بلکہ عظیم ذمہ داری کا نام ہے اصولوں اور ریاستی قوانین کو پیش نظر رکھ کر صحافت کی جائے تو یہ شعبہ ملک کی ترقی و خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے جیسا کہ ترقیافتہ ممالک میں ہوتا آرہا ہے انہوں نے کہا کہ ملک میں زرد صحافت کے خاتمے کیلئے نوجوان صحافیوں سے کافی امیدیں وابستہ ہیں لہٰذا مستقبل قریب میں وہ ذمہ دارانہ صحافت کو فروغ دیکر ذرائع ابلاغ کی دنیا میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں سوشل میڈیا سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ نئی میڈیا ہے اور ہمارے لوگوں کیلئے تو باالکل نئی نویلی دلہن جیسی کشش رکھتی ہے مگر وہ اس کے کافی سارے منفی اور مثبت اثرات سے بے خبر ہیں جو انکے دل و دماغ سے مخفی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ محض ظاہری کشش کے سبب ہر کوئی صحافی بن کر اسے استعمال تو کر رہا ہے مگر اسکے پوشیدہ نتائج سے لاعلمی کے سبب شعوری یا لاشعوری طور پر دوسروں کی مشکلات بڑھانے کے ساتھ ساتھ خود بھی مصیبت میں پھنس جاتا ہے شائستہ حکیم کے سوال پر انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے معاشرے پر مثبت اثرات بھی نمایاں ہیں تاہم اولین شرط یہ ہے کہ قومی اقدار اور اصولوں کے مطابق اس پر کام کیا جائے مغربی دنیا میں اس کو مثبت مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں اس کا منفی رجحان زیادہ ہے جس سے صحافیوں کی سرگرمیوں کیلئے بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں پختونخوا ریڈیو سے متعلق رفیع اللہ کا کہنا تھا کہ یہ صوبائی حکومت کا صحافت کے فروغ کیلئے انتہائی اچھا اقدام ہے اور مستقبل میں اسکے ذرائع ابلاغ کے تمام شعبوں کے علاؤہ بحیثیت مجموعی پورے معاشرے پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہونگے عام لوگوں کی طرح ہم صحافی بھی اس کی نشریات بڑے انہماک سے سنتے ہیں جو معلومات و تفریح اور صحت و تعلیم سے لیکر حالات حاضرہ تک کے تمام تر موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں اور عوامی شعور کی بیداری میں کلیدی کردار کی حامل بن چکی ہیں انکے تمام پروگراموں کو عوام معلومات و تفریح کا بہترین امتزاج اور خزینہ سمجھتے ہیں صحافت کی تعلیم اور معیار سے متعلق عصمت اخون کے ایک سوال پر ان کا جواب تھا کہ ڈگری ہولڈر صحافی اصولوں سے باخبر ہوتے ہیں اس کیساتھ سینئر صحافیوں میں بھی سنجیدہ لوگ موجود ہیں جو صحافت کے رموز پر پورا عبور رکھتے ہیں طلباء کو چاہئے کہ ان عامل صحافیوں سے بھی بہت کچھ سیکھیں کیونکہ وہ سوات میں دہشتگردی اور آرمی آپریشن جیسے کٹھن اور مشکل ترین حالات کے دوران رپورٹنگ اور صحافت کرچکے ہیں ان کے بہت تلخ تجربات بھی ہیں طلباء کو ان سے گاہے بگاہے سیکھنا چاہیئے اور اسی میں ان کا بھلا بھی ہے۔