انعام اللہ
اس وقت ضلع سوات میں ایک سرکاری یونیورسٹی اور میڈیکل کالج، درجنوں پیشہ وارانہ ادارے، سیکڑوں سرکاری و غیر سرکاری مردانہ و زنانہ پرائمری، مڈل، ہائی، ہائر سیکنڈری سکولز اور کالجز موجود ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو رہی ہیں، لیکن شائد کم ہی لوگوں کے علم میں ہو کہ اس علاقے میں رسمی تعلیم کے پہلے ادارے کا شرف بانئی ریاست سوات میانگل عبدالودود کے نام سے1923 ء سے قائم ’’ودودیہ سکول ‘‘ کو حاصل ہے جو کہ اب ’’گورنمنٹ سنٹینئل ماڈل ہائی سکول ودودیہ‘‘ کہلاتا ہے۔
وادئ سوات کی تاریخ میں’’ودودیہ سکول‘‘ سیدو شریف کو ایک اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ اس علاقے میں رسمی تعلیم کی اوّلین درسگاہ ہے اور اسی حوالے سے اس کو ’’وادئ سوات کے تعلیمی اداروں کی ماں‘‘ کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔ کیوں کہ سابق والئی سوات کے دور میں ریاست کے طول و عرض میں قائم سکولوں کے سربراہان اور معلمین کی بڑی تعداد اسی سکول سے فارغ التحصیل رہی ہے۔ اس کے قیام کے ایک سو سال پورے ہونے والے ہیں، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق والئی سوات کی خودنوشت سوانح عمری (دی لاسٹ والی آف سوات) میں سوات کی اوّلین درس گاہ کا سال1925 ء ظاہر کیا گیا ہے جبکہ سکول کے داخل خارج ریکارڈ کے مطابق یکم اپریل 1923ء کو تین طلبہ کا داخلہ جماعت پنجم میں ہوچکا تھا اور اگلے سال یعنی 1924 ء کو داخل ہونے والے بچوں کی تعداد چھے تھی۔ سکول کے پہلے دس سال کے بچوں کی تعداد کچھ یوں ہے۔1923ء میں تین، 1924ء میں چھے، 1925ء میں چار، 1926ء میں سترہ، 1927ء میں نو، 1928ء میں سینتالیس، 1929ء میں چھپن، 1930ء میں اُنچاس،1931ء میں 75، 1932ء میں 74۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں لوگوں کے لیے رسمی تعلیم بالکل ایک اجنبی چیز تھی، لیکن سکول داخل خارج کے اوپر ’’اینگلوورنیکیولر سکول‘‘ لکھا ہوا ہے اور اوّلین طلبہ جماعت پنجم میں داخل ہوئے تھے، تو پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تین بچوں نے چوتھی جماعت تک کہاں سے پڑھا تھا۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ اس زمانے میں مسجدوں میں کچھ بچے لکھنا پڑھنا سیکھ جاتے تھے۔ ہوسکتاہے انہی میں سے تین بچوں کو پانچویں جماعت میں داخلے کا اہل قرار دیا گیا ہو اور ایک روایت کے مطابق سیدو شریف میں ہی ایک غیر رسمی مدرسہ (سکول) پہلے سے موجود تھا، تو اس کا مطلب یہ ہواکہ سوات کا اوّلین سرکاری سکول پرائمری نہیں بلکہ مڈل سکول تھا۔