سوات(مارننگ پوسٹ) قانون کی حکمرانی کا مطلب یہ ہے کہ تمام شہری آئین میں دئے گئے حقوق کیساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں سے بھی عہدہ برآ ہو۔ قانون کویکساں لاگو کرنے کا مقصد کسی سے انتقام لینا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کا مقصد معاشرے کی اصلاح کرنا ہوتا ہے۔ اور ہمارا پولیس اور انصاف کا نظام اتنا ہی اچھا ہے جتنا معاشرہ اچھا ہے اور اسمیں اتنی ہی خامیاں ہیں جتنی اس معاشرے میں ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی نظام معاشرے سے الگ نہیں ہوتا ہے۔۔ ان خیالات کا اظہار اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ آفیسر ایف سی دانیال احمد جاوید نے قانون کی حکمرانی کے موضوع پر سی آر ایس ایس کے زیر اہتمام اولسی تڑون کے نام سے سوات یونیورسٹی میں منعقدہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ورکشاپ میں ملاکنڈ کلسٹر کے چار یونیورسٹیز کے تیس طلباء و طالبات نے شرکت کی۔ یہ ورکشاپ سی آر ایس ایس کے اولسی تڑون پروگرام کا حصہ ہے جس کا بنیادی مقصد نوجوانوں کے تنقیدی صلاحیتوں کو نکھارنا ہے تاکہ وہ دوسروں کے خیالات عقائد و نظریات کا احترام کے ساتھ جائزہ لے کر آگے بڑھے اور ایک پر امن معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ دانیال احمد جاوید نے کہا کہ قانون کو اندھا اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ کسی کے جذبات احساسات اور خواہشات کا لحاظ نہیں رکھتا ہے بلکہ جب بھی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو قانون خود حرکت میں آتا ہے اور اپنا رستہ خود بناتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پختونخوا پولیس قانون کی حکمرانی کے لئے سخت محنت و جدوجہد کر رہی ہے لیکن کوئی بھی تبدیلی راتوں رات نہیں آسکتی ہے اگر نوجوانوں سمیت معاشرے کے مختلف طبقات پولیس سے تعاون کرے تو بہت جلد ملک میں مثبت تبدیلی نظر آئے گی۔ انھوں نے کہا کہ کوئی بھی ملزم اس وقت تک بے گناہ ہوتا ہے جب تک اس کا جرم عدالت میں ثابت نہ ہوجائے۔جبکہ قانون کی نظر میں مجرم کے حامی اور سہولت کار بھی اسی طرح مجرم تصور ہوتے ہیں جس طرح مجرم خود ہوتا ہے اس لئے سب کو موجودہ حساس حالات میں مجرموں پر نظر رکھنے اور پولیس سے تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔اس موقع پر جمہوریت اور احتساب کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے سوات یونیورسٹی فرانزک سائینسز ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین ڈاکٹر محمد اسرار نے کہاکہ آج تک دنیا بھر میں حکمرانی کے جتنے تجربات کئے گئے جمہوریت اس میں سب سے بہتر طرز حکمرانی سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ جمہوریت میں عوام کے منتخب نمائندے عوامی خواہشات کے مطابق جمہوری انداز میں فیصلے کرتے ہیں اور وہ نہ صرف اپنے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ بلکہ اگر عوام چاہے تو انہیں تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اجتماعی شعور کھبی غلط نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے اکثریت کی بنیاد پر جمہوری فیصلے ایک پر امن اور ترقیافتہ معاشرے کی ضامن ہوتی ہے۔ انھوں نے جمہوریت کے مختلف اقسام پر بات کرتے ہوئے ریاست کے اہم ستون مقنن، عدلیہ اور انتظامیہ کے کردار پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ عدلیہ اور میڈیا کو انتظامیہ کے احتساب کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ معروف ماہر تعلیم اور ماسٹر ٹرینر شگفتہ خلیق نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کا احترام ہی عزت اور آزادی کیساتھ جینے کا ذریعہ ہے،انھوں نے کہا کہ آئین تمام شہریوں کو بلا امتیاز عقیدہ، مذہب فرقہ اور قبیلہ یکساں بنیادی حقوق فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ جبکہ ایک حق سے روگردانی یا استحصال باقی حقوق کے استحصال کا زریعہ بنتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ امن اور سماجی ربط براہ راست انسانی خدمات اور حفاظت کیساتھ جڑا ہوا ہے۔ جس معاشرے میں انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے گا اسی معاشرے میں امن و سکون کا دور دورہ ہوگا۔ ورکشاپ کے اختتامی سیشن سے سی آر ایس ایس کے مصطفی ملک اور شمس مومند نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو سماجی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ بدقسمتی سے بعض لوگ سوشل میڈیا کو نفرت اور دوریاں بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں مگر اس کی روک تھام کے لئے قانون پر عملدر آمد بہت کمزور ہے۔ انھوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ اپنے سوشل میڈیا سرکل کو اولسی تڑون اور امن کے فروغ کے لئے استعمال کرنا شروع کرے۔ آخر میں طلباٗ و طالبات میں سرٹیفکیٹ تقسیم کئے گئے۔
قانون اندھاہوتاہے جس میں جذبات احساسات اور خواہشات کا لحاظ نہیں رکھا جاتا، دانیال احمد جاوید
