سوات: خپل کلی وال کارواں کے زیر اہتمام ضلع سوات کی وادی کوکاری میں خواتین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں سماجی میدان میں سرگرم علاقے کے کئی ممتاز خواتین نے دنیا کی نصف سے زیادہ مکینوں کی بھرپور نمائیندگی کی، اپنے مسائل و مشکلات اجاگر کئے اور ان کے ممکنہ حل کے سلسلے میں کارآمد تجاویز دیں۔ اس موقع پر کانفرنس کے اغراض ومقاصد بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہمارے خواتین موجودہ دور میں بھی کئی مسائل و مشکلات سے دوچار ہیں۔ ان کو خوراک تعلیم و تربیت صحت اور روزگار کی یکساں سہولتیں میسر نہیں۔ وہ کئی قسم کے سماجی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ جس سے نمٹنے کے لئے مشترکہ جدو جہد کی ضرورت ہے۔ اس کانفرنس میں خصوصی دعوت پر شرکت کرنے والی خیبر پختونخوا کی نامور ماہر تعلیم میڈم عفت ناصر، مایہ ناز و متحرک ٹرینر صابرہ شاکر، اولولعزم سماجی کارکن حمرا فرحان، تحقیق کار حنا لطیف، کے کے کارواں کے شعبہ خواتین کی سرگرم کارکنان ڈاکٹر شیخ نورالعین اور شاندانہ زاہد کے علاوہ دیگر شرکائے محفل نے خواتین کے مسائل و مشکلات، حقوق،ذمہ داریوں،درپیش چیلنجز،خاندانی استحکام اور معاشرے کے سدھار پر تفصیلی روشنی ڈالی اور قرار دیا کہ مرد و خواتین زندگی کے اس چلتی گاڑی کے دو پہیئے ہیں، جن کے باہمی تعاون و اشتراک کے بغیر اس گاڑیکا سکون اور امن سے چلنا محال ہوگا۔ کانفرنس میں اس حقیقت کی نشاندھی کی گئی کہ خواتین میں تعلیم اور شعور بڑھے گا تو وہ معاشی طور پر خود کفیل ہو کر خوداعتمادی حاصل کر سکے گی اور اس طرح معاشرے سے عدم برداشت کا عنصر وقت کے ساتھ ساتھ کم کیا جا سکے گا۔کہا گیا کہ ماضی میں ہمارے ملک میں تعلیم کی کمی اور تنگ نظری پر مبنی رویوں اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے خواتین متعدد مسائل کا شکار رہی ہیں، تاہم ملازمتوں کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں میں خواتین کا بڑھتا ہوا کردار کافی حد تک حوصلہ افزاء ہے جو ان کے شعوری استعداد میں اضافے کے رجحان کے ساتھ ساتھ نئی منزلوں کا تعین کر رہی ہے۔یقیناً ملک کی خواتین میں حصول تعلیم کا شوق و رُجحان کافی حد تک خوش آئند ہے اور ایسے گھرانے جہاں لڑکیوں کو ابتدائی تعلیم سے آگے پڑھانے کو معیوب سمجھا جاتا تھا، آج ان گھرانوں کی بچیاں بھی پیشہ ورانہ اداروں میں حصول علم میں مصروف ہیں۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود اُن ستّر فیصد طالبات میں سے اکثریت کا حال یہ ہے کہ کئی وجوہات کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم سے ملک و قوم کو تو چھوڑیں خود اپنے لیے بھی کوئی فائدہ نہیں حاصل کر پا رہی ہیں جو کہ ایک المیہ ہے۔اس موقع پر سوات میں مجوزہ خواتین یونیورسٹی کے قیام کے فیصلے کو سراہا گیا اور اس سلسلے میں فوری طور پر عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ دنیا کے نصف آبادی کو علم و ھنر اور تربیت کے وافر مواقع فراہم کرنے کے لئے سوات میں ہنگامی بنیادوں پر خواتین کے بیس ہائر سیکنڈری سکولز، دس ڈگری کالجز اور دس فنی تربیت کے ادارے کھولنے کی اشد ضرورت ہے جس سے خواتین ہر شعبہ زندگی میں علم و ھنراور تربیت کے حصول سے مالامال ہو کر اپنے پاوں پر کھڑے ہو سکیں گے اور معاشرتی سدھار میں اپنا متعین کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔شرکاء نے اس پروگرام کو بہت مفید اور بامقصد قرار دے کر زور دیا کہ اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے مزید وسعت دی جائے اور مستقبل قریب میں ایک بھرپور خواتین کنونشن منعقد کرنے کی تیاری کی جائے جس میں خواتین کے تمام مسائل کی نشاندھی اور حل کے لئے ایک میکینزم ترتیب دے کر حکومت وقت کا توجہ مبذول کرایا جا سکے۔ اس کے بعد سوال و جواب کی نشست منعقد ہوئی، جس میں شرکاء نے بڑی دلچسپی لی اور اپنے مسائل کے حل کے لئے بھرپور کردار ادا کرنے کا یقین دلایا۔ہم خود اپنے ساتھ کتنا بڑا ظلم کر رہے کہ چند گھٹیا لوگوں کے برے نظروں سے اپنی خواتین کو بچانے کے بہانے سے ان کو گھروں میں مقید کر رکھا ہے جو کسی صورت بھی جائز نہیں۔اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ابتدائی طور پر ‘کارواں دہ خوئیندو زے’ کے نام سےایک واٹس ایپ گروپ بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا جس میں خواتین سے متعلقہ امور پر بھرپور بحث و مباحثہ کی روشنی میں مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔
سوات : وادی کوکاری میں خواتین کانفرنس کا انعقاد،اہم شخصیات کی شرکت
