سوات(مارننگ پوسٹ) پختونخوا ریڈیو سوا ت سنٹر نہ صرف تفریح اور صحافت بلکہ علم وادب اور ثقافت و سیاحت کے فروغ کیلئے بھی صوبائی حکومت کا احسن اقدام ہے جس سے مستقبل میں سوات کے علاوہ پورا خطہ مستفید ہوگا ان خیالات کا اظہار سوات کے سینئر صحافی، دانشور، ادیب اور کالم نگار فضل ربی راہی نے پختونخوا ریڈیو کے پروگرام ’’د سوات رنگونہ‘‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔فضل ربی راہی کا کہنا تھا کہ آج کل ان کا زیادہ تر قیام یورپ میں ہے تو تمام شعبہ ہائے زندگی میں وہاں کی ترقی اور اہل وطن کی پسماندگی دیکھ کر کلیجہ پھٹنے کو آتا ہے اور بقول اقبالؒ دل سیپارہ ہوتا ہے، دونوں جانب کی قومی روایات کا تقابلی جائزہ لوں تو پتہ چلتا ہے کہ بحیثیت قوم وہ مسلسل جاگ رہے ہیں اور ہم سوتے ہی چلے جارہے ہیں انہیں مستقبل کی فکر ہے اور ہم ماضی کی تلخیوں میں دھنسے جارہے ہیں انہیں اپنے دوست احباب اور ہمسایوں کی خوبیوں اور خامیوں سے کوئی غرض نہیں بلکہ اپنے کام اور آنے والے کل پر انکی نظر ہے جبکہ یہاں ہمیں ایک دوسرے کی غیبت اور چغلیاں کھانے سے فرصت نہیں، چاہے ہمارے اپنے کام اور صحت کا ہی حرج کیوں نہ ہو۔ ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگ چکا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ترقی و خوشحالی کے بام عروج پر ہیں اور ہم اپنے ہی ہاتھوں زوال کا شکارہیں۔ اس زوال کو عروج میں بدلنے کیلئے جاگنا اور جگانا پہلی شرط ہے جو شائد ہمارے نصیب میں نہیں طرفہ تماشا یہ کہ ہمارے یہی سست و کاہل اور چغل خور لوگ مغرب جائیں تو اپنی بری عادتیں پاکستان میں چھوڑ کر وہاں دن رات محنت کرتے ہیں۔ میڈیا کی اہمیت سے متعلق انہوں نے کہا کہ صحافت وسیع اور مفید شعبہ ہے اور ملک بھر میں ہزاروں لاکھوں باصلاحیت لوگ اس سے وابستہ ہیں فضل ربی راہی نے اپنی دلچسپیوں سے متعلق بتایا کہ انکا بچپن ہی سے صحافت کا شوق تھا اور اخبارات کیلئے لکھتا تھا اور اسی لکھنے اور صحافت کے شوق میں اب مختلف موضوعات پر 7 کتابوں کا خالق ہوں انہوں نے کہا کہ علم وادب کی ترویج کیلئے شعیب سنز پبلشرز کا ادارہ کافی عرصہ سے چلارہا ہوں اور اب تک اس ادارے کے تھرو مختلف لکھا ریوں کی سینکڑوں کتابیں چھاپ کر قارئین کو پیش کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انکی تین نئی کتابیں زیر طبع ہیں اور جلد قارئین کے ہاتھوں میں ہونگی۔ انکی کتابیں زیادہ تر تاریخ کے حوالے سے ہیں ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ علم وادب اور صحافت کا مستقبل ادیبوں اور صحافیوں کے اپنے ہاتھ میں ہے اگر ان لوگوں نے محنت کی اور نئے آنے والوں کی اصلاح سمیت ان کو تخلیقی پلیٹ فارم دیا تو سب کا مستقبل تابناک ہوگا ورنہ ہر سو تاریکی ہوگی۔ فضل ربی راہی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بیرونی دنیا کی صحافت میں زمین آسمان کافرق ہے وہاں صحافت کے مختلف شعبے ، ڈیپارٹمنٹس اور یونیورسٹیاں ہیں اور ان سے فارغ ہوکر عملی صحافت کرتے ہیں لیکن یہاں یہ تصور نہیں ہے اس وجہ سے یہاں بہت کمزوریاں اور خامیاں ہیں۔ انہوں نے نووارد نوجوان صحافیوں کے حوالے سے بتایا کہ ان کو چاہیئے کہ تھیوری کے ساتھ عملی صحافت پر بھی توجہ دیں اور سیکھیں کیونکہ مستقبل ان کا ہے اور انہوں نے یہ شعبہ ٹھیک کرنا ہے ۔